
مرغی کو پکڑ کے سیدھا ہوا ہی تھا کہ خوش رو خاتون خانہ پر نظر پڑی ..ابھی نظر “چار ہوئی تھی کہ باہر سے آہٹ سنائی دی ..خاتون گھبرائی اور بولی کہ اس کا خاوند آ گیا ہے اور بہت شکی مزاج ہے ، اور ظالم بھی –
خاتون نے جلدی سے اسے ایک الماری میں گھسا دیا ……
لیکن وہاں ایک صاحب پہلے سے “تشریف فرماء ” تھے –
اب اندر دبکے نکٹھو کو کاروبار سوجھا ..آئیڈیا تو کسی جگہ بھی آ سکتا ہے – سو اس نے دوسرے صاحب کو کہا کہ :
“مرغی خریدو گے ؟”
اس نے بھنا کے کہا کہ یہ کوئی جگہ ہے اس کام کی ؟
“خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟”
مجبور ہو کے اس نے کہا کہ :
” بولو کتنے کی ؟
سو رپے کی …..
اتنی مہنگی ……..؟
“خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟
“سو روپے کی مرغی بیچ کے نکٹھو بہت خوش ہوا …ایک دم دماغ میں روشنی ہوئی :
” اوے مرغی بیچو گے ؟
“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ؟
بیچتے ہو یا کروں شور ….؟
مرے ہوے لہجے میں بولا :
“کتنے کی لو گے ؟
“پچاس کی …”
اللہ سے ڈر ، ابھی سو کی مجھے بیچی ہے “
“اللہ سے ڈر ہے تو یہاں الماری میں کیوں گھسے بیٹھے ہو …. دیتے ہو یا کروں شور ؟
نکھٹو نے مرغی پچاس کی خریدی اور چپکا بیٹھ گیا ، لیکن ابھی کہاں ابھی تو بزنس شروع ہوا تھا …
” مرغی خریدو گے ؟؟”
اگر رقیب روسیاہ باہر مورچہ سنبھالے نہ بیٹھا ہوتا تو وہ اس کا سر توڑ دیتا ، لیکن بے بسی سے بولا:
” کتنے کی دو گے ؟”
چلو ! کیا یاد کرو گے اسی روپے دے دو حالانکہ ابھی میں نے یہ سو کی بیچی تھی لیکن واپس کسی طور واپس آ گئی “
بے بسی کے شدید احساس کے ساتھ پہلے شخص نے مرغی خرید لی –
مرغی بیچو گے ؟
مرغی خریدو گے ؟
بیچو گے ؟
خریدو گے ؟
قصہء مختصر ….
مرغی خریدتے اور بیچتے نکٹھو نے چار سو روپے کما لیے اور ہاں بتانے کی بات کہ آخر میں مرغی اس نے واپس خرید لی …
اس کامیاب تجارت کے بعد جب گھر لوٹا تو نیک دل بیوی نے سارا ماجرا سن کے حرام کمائی کا فتوی لگا دیا اور کہا کہ یہ کمائی گھر میں نہیں آئے گی .. جھگڑا بڑھا تو اگلے روز قاضی شہر کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا …
میاں بیوی قاضی کی عدالت میں پہنچے تو قاضی یہ کہہ کے عدالت چھوڑ بھاگا کہ : 





” اوئے تم یہاں بھی آ گئے ہو ..میں نے اب یہ مرغی نہیں خریدنی “
(نوٹ): یہ تحریر صرف اور صرف”مہنگائی سے بےحال عوام” کے لیے لکھی گئی ہے۔ کسی بھی قسم کی مماثلت اتفاقی ہوگی۔
مہنگائی کے خلاف سخت نوٹس لینے لگا ہوں. جاں پناہ کا نیا شوشا
عوام کا حال :










