
باقی جانوروں نے تو اس بات کو نارمل لیا ،لیکن بندر نے خرگوش کو پکڑ لیا ۔
اور رکھ کے چپیڑ کڈ ماری۔۔۔
اور پوچھا ” اوئےٹوپی کیوں نئیں پائی”
خرگوش بولا “سر میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا”
بندر نے کہا “اچھا ٹھیک آ”
اگلے دن خرگوش فر چہل قدمی کر رہا تھا تو بندر نے اُسے بلایا اور رکھ کے ایک کان کے نیچے دی اور پوچھا “اوئےٹوپی کیوں نئیں پائی” ۔
خرگوش نے روتے ہوئے کہا
“سر کل بھی بتایا تھا کہ میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا “تو بندر نے کہا “اوکے گٹ لاسٹ”
تیسرے دن فیر بندر نے پھروہی حرکت کی تو خرگوش روتے ہوئے شیر کے پاس گیا اور ساری کہانی بتائی ۔
شیر نے بندر کو بلایا اور کہا “ایسے تھوڑا چیک کرتے ہیں اور بھی سو طریقے ہیں”
جیسے تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو” جاؤ سموسے لاؤ” اگر وہ صرف سموسے لائے تو چپیڑکھڑکا ؤ اور کہو “چٹنی کیوں نہیں لائے “
فرض کرو اگر وہ دہی والی چٹنی لے کر آئے تو لگا تو چپیڑکھڑکا ؤاور کہو” آلو بخارے والی کیوں نہیں لے آئے”
اور
اگر آلو بخارے والی لے کر آئے تو ٹکا دینا کے “دہی والی کیوں نہیں کے کر آئے”
خرگوش نے یہ ساری باتیں سن لیں۔ اگلے دن بندر نے خرگوش کو بلایا اور کہا “جاؤ سموسے لے آءو”
خرگوش بھاگا بھاگا سموسے لے آیا۔۔۔
بندر نے پوچھا چٹنی لائے ہو؟
خرگوش نے کہا يس سر۔۔۔
بندر نے فیر پوچھیا کون سی؟
خرگوش بولا “سر دہی والی اور آلو بخارے والی دونوں لے کر آیا ہوں “
بندر نے رکھ کے ایک چپیڑ ماری اور پوچھا
توں اے دس ٹوپی کیوں نئیں پائی 


