
یہ بات ہے 1895ء کی کہ جب ایک جرمن سائنسدان ویلیم رونٹجن یہ جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ کیا کیتھوڈ ریز شیشے میں سے گزر سکتی ہیں؟اس نے اپنے تجربہ میں پایا کہ جب ٹارگٹ میٹریل(اینوڈ) سے بہت زیادہ انرجی رکھنے والی کیتھوڈ ریز(الیکٹرونز) ٹکراتی ہیں تو اس کے نتیجہ میں کچھ ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہیں اور قریب پڑی فلوروسنٹ سکرین پر عکس بناتی ہیں۔اس نے دیکھا کہ فلوروسنٹ سکرین پر صرف ٹھوس اشیا کا ہی عکس بنتا ہے یعنی جب یہ کسی جسم سے ٹکراتی ہیں تو اس جسم کے ٹھوس حصوں کا ہی عکس بناتی ہے۔
ایک دفعہ اس نے اپنی اہلیہ کے ہاتھ میں سے ان ریز کو گزارا اور فلوروسینٹ سکرین پر صرف ہڈیوں کا ہی عکس نظر آیا۔جس سے واضع ہوتا ہے کہ یہ گوشت میں سے آسانی سے گزر سکتی ہیں اور ان کے اسی کمال کی وجہ سے ان کو طب کے میدان میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ایکس ریز کی وجہ سے ببنے والی فوٹوگرافی کی پلیٹ میں اپنی اہلیہ کے ہاتھ کی تصویر ایکس ریز کا طب میں استعمال کی پہلی دریافت تھی۔چونکہ وہ ان ریز کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا،اس لیے ان ریز کا نام ”X“ پڑ گیا یعنی نامعلوم ریز۔ایکس ریز کی ویو لینگتھ تقریبا 0.01 نینو میٹر سے لے کر 10 نینو میٹر تک ہوتی ہے۔
ایک دفعہ اس نے اپنی اہلیہ کے ہاتھ میں سے ان ریز کو گزارا اور فلوروسینٹ سکرین پر صرف ہڈیوں کا ہی عکس نظر آیا۔جس سے واضع ہوتا ہے کہ یہ گوشت میں سے آسانی سے گزر سکتی ہیں اور ان کے اسی کمال کی وجہ سے ان کو طب کے میدان میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ایکس ریز کی وجہ سے ببنے والی فوٹوگرافی کی پلیٹ میں اپنی اہلیہ کے ہاتھ کی تصویر ایکس ریز کا طب میں استعمال کی پہلی دریافت تھی۔چونکہ وہ ان ریز کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا،اس لیے ان ریز کا نام ”X“ پڑ گیا یعنی نامعلوم ریز۔ایکس ریز کی ویو لینگتھ تقریبا 0.01 نینو میٹر سے لے کر 10 نینو میٹر تک ہوتی ہے۔
ان ریز کی ویو نیچر کو ایک سائنسدان برکلی نے سب سے پہلے 1906ء میں متعارف کرویا اور اس کے چھ سال بعد ہی ایک اور سائنسدان جن کا نام Laue تھا،نے ان کی ویو لینگتھ کو معلوم کیا۔
ایکس ریز کی دریافت سے طبی شعبہ میں تیزی کے ساتھ ترقی ہوئی اور یہ جلد ہی یہ طب میں اہم تشخیصی آلہ بن گیا۔جس سے ڈاکٹروں کو بغیر کسی سرجری کے پہلی دفعہ انسانی جسم کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملا۔اس کی دریافت کے کئی ہفتوں بعد ایک ڈاکٹر رومانوچ نے نہ صرف جسم کے مختلف حصوں کی تشخیص بلکہ ایکس ریز کے ساتھ مینڈکوں اور کیڑوں کو بھی ختم کیا۔وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ نہ صرف ان ریز کو جسم کے ٹھوس حصوں کی تصویر لینے بلکہ زندہ افعال کو متاثر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
1897ء میں پہلی دفعہ ان ریز کو فوجی جنگ کے میدان میں،بلقان کی جنگ کے دوران مریضوں کے اندر گولیوں اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی تلاش کے لیے استعمال کیا گیا۔ابتدائی طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ریز بغیر کسی نقصان کے گوشت میں سے گزر جاتی ہیں۔مگر جیسے جیسے ایکس ریز پر مزید تحقیق ہوتی گئ تو یہ بات سامنے آئی کہ اسکے سائیڈ افیکٹ بھی ہیں۔1904ء میں تھامس ایڈیسن کے معاون،کلیرنس ڈیلی جس نے ایکس ریز کے ساتھ بڑے پیمانے پر بہت کام کیا تھا،جلد کے کینسر کی وجہ سے مر گیا۔
اسکی موت نے کچھ سائنسدانوں کو ایکس ریز کے خطرات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کیا۔لیکن ان سب کے باوجود اس کا استعمال بڑھتا چلاگیا اور آج ایکس ریز ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر طب کے شعبہ،مادی تجزیہ اور ایئر پورٹ اسکینرز جیسے آلات وغیرہ میں استعمال ہورہی ہے۔
اسکی موت نے کچھ سائنسدانوں کو ایکس ریز کے خطرات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کیا۔لیکن ان سب کے باوجود اس کا استعمال بڑھتا چلاگیا اور آج ایکس ریز ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر طب کے شعبہ،مادی تجزیہ اور ایئر پورٹ اسکینرز جیسے آلات وغیرہ میں استعمال ہورہی ہے۔
ایکس ریز کو پیدا کرنے کے لیے ایسے ٹارگٹ میٹریل کی ضرورت ہوتی ہے جسکا میلٹنگ پوائنٹ اور اٹامک نمبر بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم لائیٹر ایلمنٹ مثلا ایکس ریز پیدا کرنے کے لیے ہائیڈروجن استعمال کریں تو ان میں سے نکلنے والی فوٹانز کی انرجی کلو الیکٹرون وولٹ سےکم ہوتی جبکہ ایکس ریز فوٹانز کی انرجی کلو الیکٹرون وولٹ میں ہوتی ہے۔
اسلیے ہم ایکس ریز کی پروڈکشن کے لیےایسے میٹیریل کرتے ہیں جن کی انرجی کلو آف الیکٹرون وولٹ میں ہو۔عام طور پر ایکس ریز کے لیے جو میٹیریل ٹارگٹ استعمال کیا جاتا ہے اسمیں مولی بیڈینیم،ٹنگٹسٹن اور کاپر وغیرہ شامل ہیں اور اس کے علاوہ جن الیکٹرونز کی بیم جو کہ فلامنٹ جو ٹیوب میں بطور کیتھوڈ استعمال ہوتا ہے،کی انرجی تقریبا کلو آف الیکٹرون وولٹ میں ہونی چاہے تب جاکر ایکس ریز پیدا ہوں گی۔مولی بیڈینیم کے کیس میں الیکٹرونز کی انرجی کم ازکم 35 کلو الیکٹرون وولٹ ہونی چاہے تب جاکر ایکس ریز پیدا ہوں گی۔
الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم میں یہ ریز الٹرواٸیلٹ اور گیما ریز کے درمیانی ریجن میں پائ جاتی ہیں۔انکی فریکونسی الٹراوئیلٹ سے زیادہ جبکہ گیما ریز سے کم ہوتی ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے فوٹانز جن کی فریکونسی گیما ریز سے کم ہوتی ہے اور الٹروائیلٹ ریز سے زیادہ ہوتی ہے ان کو x ریز کہتے ہیں۔
اسلیے ہم ایکس ریز کی پروڈکشن کے لیےایسے میٹیریل کرتے ہیں جن کی انرجی کلو آف الیکٹرون وولٹ میں ہو۔عام طور پر ایکس ریز کے لیے جو میٹیریل ٹارگٹ استعمال کیا جاتا ہے اسمیں مولی بیڈینیم،ٹنگٹسٹن اور کاپر وغیرہ شامل ہیں اور اس کے علاوہ جن الیکٹرونز کی بیم جو کہ فلامنٹ جو ٹیوب میں بطور کیتھوڈ استعمال ہوتا ہے،کی انرجی تقریبا کلو آف الیکٹرون وولٹ میں ہونی چاہے تب جاکر ایکس ریز پیدا ہوں گی۔مولی بیڈینیم کے کیس میں الیکٹرونز کی انرجی کم ازکم 35 کلو الیکٹرون وولٹ ہونی چاہے تب جاکر ایکس ریز پیدا ہوں گی۔
الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم میں یہ ریز الٹرواٸیلٹ اور گیما ریز کے درمیانی ریجن میں پائ جاتی ہیں۔انکی فریکونسی الٹراوئیلٹ سے زیادہ جبکہ گیما ریز سے کم ہوتی ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے فوٹانز جن کی فریکونسی گیما ریز سے کم ہوتی ہے اور الٹروائیلٹ ریز سے زیادہ ہوتی ہے ان کو x ریز کہتے ہیں۔
ایکس ریز کی اقسام:
1)Continuous x-rays
2)Characteristics x-rays
کانٹی نیوئس ایکس ریز اس وقت پیدا ہوتی ہے جب الیکٹرونز ٹارگٹ میٹیریل سے الیکٹرونز نکالے بغیر ڈفلیکٹ(ڈی ایکسلریٹ) ہوں۔اگر کولمب انٹرکشن کی وجہ سے وہ اپنی تمام انرجی لوز کردیں تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے فوٹانز یا ایکس ریز کی ویو لینگتھ کو کٹ آف ویو لیکتھ کہتے ہیں۔اسکو مندرجہ ذیل فارمولا سے معلوم کیا جاسکتا ہے
λmin=hc/eV
جبکہ characteristic ایکس ریز ایسی ایکس ریز کو کہتے ہیں جو انرشیل ٹرانزیشن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔انرشیل ٹرانزیشن کا مطلب یہ ہے کہ جب الیکٹرونز ٹارگٹ کے ایٹمز سے ڈفلیکٹ ہونے کی بجاۓ ان سے ٹکرا کر ان میں سے الیکٹرونز کو نکال دیں۔جس شیل سے الیکٹرونز نکلیں گے وہاں ویکنسیز کریٹ ہوجائیں گی۔ان ویکسنیز کو پورا کرنے کے لیے دوسرے شیلز میں سے الیکٹرونز جب آئیں گے تو ان کو انرجی خارج کرنا پڑے گی اور وہ انرجی ایکس ریز فوٹانز کی صورت میں خارج ہوگی۔