
اس کی فقہی حیثیت یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے، اور چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے؛ اس لیے اس قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا کمپنی اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے یا رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ دیتی ہے یا ایزی لوڈ پر کیش بیک دیتی ہے تو ان کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
اس لیے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت قرض ہے، اور قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو مشروط منافع دیتی ہے، یہ شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع کے لین دین کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ (مصنف بن أبی شیبہ، رقم:۲۰۶۹۰ )
نیز چوں کہ اس صورت میں مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہے ؛ اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلوانا یا کھولنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
اگر کوئی ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘ کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جلد از جلد مذکورہ اکاؤنٹ ختم کروائے اور صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا صرف جمع کردہ رقم کے برابر استفادہ کرسکتاہے، اس رقم پر ملنے والے اضافی فوائد حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہوں گے۔
اور اگر کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانے کو اس ناجائز معاملہ کے ساتھ مشروط نہ کرے، یعنی مخصوص رقم رکھوانے کی شرط کے بغیر ہی کھولا جائے، یا کمپنی نے از خود کھول دیا ہو تو پھر رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور دیگر اس طرح کے کاموں کےلیے اس اکاؤنٹ کا استعمال جائز ہوگا، اب اس صورت میں اس اکاؤنٹ کے استعمال کی صورت میں اگر کوئی رعایت یا کیش بیک ملتا ہے تو اس کے حکم میں یہ تفصیل ہوگی کہ اگر وہ کیش بیک اور رعایت اسی کمپنی کی طرف سے مل رہا ہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہوگا۔
اور اس کا استعمال جائز ہوگا، اور اگر یہ رعایت اس کی پشت پر موجود بینک کی طرف سے مل رہا ہے تو پھر اس رعایت کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس بارے میں معلومات کرلی جائیں، اور جب تک معلومات نہ ہوں ان کیش بیک اور سہولیات کے استعمال سے احتیاط کی جائے۔
اور اگر کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانے کو مخصوص رقم جمع کرانے سے بھی مشروط نہ کرے، اور رقم جمع کرنے پر اضافی رقم یا سہولیات وغیرہ بھی نہ دے، بلکہ رقوم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی یا لوڈ کرنے کی حد تک سہولیات ہوں تو ایسا اکاؤنٹ کھلوانا اور اس سے استفادہ کرنا جائز ہوگا۔
باقی جہاں تک یہ بات ہے کہ کمپنی ان پچاس منٹ اور ایم بیز پر کچھ پیسےچارجز کاٹتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر پچاس فری منٹس اور 50 ایم بی انٹرنیٹ کی قیمت اتنے کم پیسے نہیں ہوتی، (عموماً ایزی پیسہ اکاونٹ کی صورت میں کمپنی ان سہولیات پر پندرہ پیسہ چارج کرتی ہے) بلکہ ان کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، ایزی پیسہ والوں نے ان کی قیمت اس ہزار روپے رکھنے کی وجہ سے کم رکھی ہے،۔
یہی وجہ ہے کہ اگر صارف اکاؤنٹ میں ہزار روپے نہ رکھوائے تو مذکورہ فری منٹس اور انٹرنیٹ ایم بی اتنے کم معاوضہ پر نہیں دیے جاتے۔ اور جو ہزار روپے رکھے جاتے ہیں ان کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض پر کسی بھی قسم کا مشروط نفع سود ہے، لہذا مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔
“فتاوی شامی” میں ہے:
“وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن”. (5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)